حضرت مولانا فیض الحسن صاحب فیض اعظمی

نام :      فیض الحسن،
  تخلص  :    فیض
 سن پیدائش : 1896 ء
تلمیذ :ابتدا میں حضرت وسیم خیر آبادی سے اور بعد میں حضرت نواب جعفرعلی خاں صاحب اثر لکھنوی سے مشورۂ سخن کرتے رہے۔
سرخ وسفید رنگ،موزوں قد ،نورانی چہرہ،سفید ریش، سفیدپوش،نفاست پسند، پاک سیرت، نرم گفتار،بیحد خلیق اور شفیق۔بڑھا پے میں جب جوانی کی یاد ستاتی ہے تو بڑے پرسوز انداز میں کہتے ہیں۔
مقبول مناجات نہیں ہوسکتی
منظور ہر اک بات نہیں ہو سکتی
اے عہدِ جوانی کی سہانی راتو
اب تم سے ملاقات نہیں ہوسکتی
ابتدائی تعلیم مدرسہ دارلعلوم مئو سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ سبحانیہ الٰہ  آبادسے ملّا فاضل کی سند فراغت حاصل کی۔ اردو،فارسی،اور عربی کے عالم ہیں۔ ادب کے رسیا،عروض کے ماہر، اردو کے باکمال شاعر پوری عمر درس و تدریس میں گزری ۔عربی مدارس میں تعلیم حاصل کی اور انگریزی اسکول میں تعلیم دیتے رہے ۔ملازمت کی ابتدا1921ء  میں ہوئی۔جون پور،سہارن پور،فرخ آباد،غازی پوراور مرزاپور گورمنٹ اسکولوں میں بحیثیت استاد ملازم رہے1955ء میں ریٹائر ہونے کے بعد کپڑوں کی ایک معمولی دوکان کرلی لیکن کمزور جسم اور خرابی صحت کی وجہ سے یہ تجارتی سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکا۔
 فیض صاحب شاعری کی ہر صنف میں محارت رکھتے ہیں نظمیں ہو یا غزلیں، رباعیاں ہوں یا قطعات اور قصیدے سب کچھ بڑے پیارے انداز میں کہتے ہیں۔
بیان کی شائستگی، زبان کی صفائی،لہجہ کا گداز، انداز فکر کی گہرائی تو آپ کے کلام میں مل سکتی ہے لیکن سطحیت اور ابتدال جیسی کوئی چیز نہیں مل سکتی   
حضرت اصغر  گونڈوی سے آپ کو گہری عقیدت ہے۔ان کی شاعری سے  بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں جس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ملاہے اصغرِ مرحوم سے کچھ فیضِ روحانی
شرار معنوی لفظوں میں رقصا دیکھ لیتا ہوں

فیض  وہ اصغر مرحوم کا رنگیں انداز
اس کی وہ شوخیِ گفتار کہاں سے لاؤں
بطورِ   نمونہ کلام کے کچھ اقتباسات ملا حظہ کیجئے۔
انیسِ درد محبت، شریک حالِ خراب
تمھاری یاد بھی ہے کتنی آشنا میری
میں اور سنگِ درِ دوست پر جبیں سائی
خداکی شان کہاں لے گئی خطا میری
ــــــــــــ
دلِ بیتاب میں جلوہ ہے اسکے روئے تاباں کا
اِک آئینہ ہے جس میں عکس ہے مہرِدرخشاں کا
اسی کے دم سے قائم نغمہائے سازِ ہستی ہیں
علوِ مرتبہ دیکھو تو مشتِ خاک انساں کا
دلِ اندوہ گیں جسکا رہین سوزِ الفت ہے
حقیقت میں یہی مفہوم ہے اس لفظِ انساں کا
ـــــــــــــــــ
وہ دل ہے اب نہ خارِ تمنا کی وہ خلش
اچھا ہوا کہ یاس نے سب کچھ مٹادیا
ہربرگِ گل سے صاف نمایاں ہے حسن  دوست
رنگینیِ بہار نے کیا گل کھلا دیا
ــــــــــــــ
جلوئہ  حسنِ رخ یار ہے چلمن کے قریب
روشن اک آگ سی ہے وادئ ایمن کے قریب
پھونک دیگی اسے خود آہِ جگر سوز مِری
کوندتی پھرتی ہے کیوں برق نشیمن کے قریب
جی میں آتا ہے تصّور کی بلائیں لے لوں
آج پاتا ہوں کسی کو رگِ گردن کےقریب
ہاں لگے ہاتھ جنوں اسکی خبر بھی لے لے
بڑھ کے آیا ہے گریباں مِرے دامن کے قریب


Unlabelled

Added on 1:57 AM


ڈاکٹر ایم اے دل حسینی
سن پیدائش : 1940ء
سن وفات: 2009 ء
نام : مختار احمد 
تخلص: دل حسینی
تلمیذ : حضرت منیف اعظمی ، اثر انصاری 

صاف رنگ ،بھرا ہوا صحتمند جسم،موزوں قد،کشادہ پیشانی،خوش پوش،جواں سال شاعر اور صحافی جس نے اپنے ضلع اعظم گڑھ میں ناموری حاصل کی اور فخر یہ طور پر اپنے اعظمی ہونے کا اعلان کرتا ہے۔
سہیل  کی سرزمیں سے ابھرا یہ آسمانِ ادب کا تارا
یہ شوخ  شبلی کا ہم وطن ہے یہ دل حسینی بھی اعظمی ہے
ابتدائی تعلیم اردو فارسی کی مقامی درسگاہ میں حاصل کی بمبئی اوریئنٹل کالج سے آنرز اِن اردوکیاہے۔
کچھ دنوں مدرسہ بحرالعلومئو میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے،پھر ایک شبینہ اسکول ”روحِ ادب“ قائم کیا جسکے وہ صدر رہے۔
ہومیو پیتھ میں ڈگری حا صل کرنے کے بعد اپنا نجی دوخانہ کھول رکھا تھا۔شاعر اور ڈاکٹر کے علاوہ ماہنامہ ”ہم چشم“ کے ایڈیٹر بھی رہے۔پندرہ روزہ اخبار ”بنکر ٹائمز “بھی نکالتے رہے۔ اس طرح مختلف فنون میں کامیابی حاصل تھی۔
غزلیں بڑی پیاری کہتے ہیں ،شعروادب میں اپنا مقام رکھتےہیں۔
نظمیں بھی بڑی رواں دواں کہتے ہیں،زبان و بیان میں بڑی صفائی اور شائستگی ہے،فکروفن میں گہرائی ہے۔
نمونۂ  کلام ملاحظہ کیجئے۔

میں ہوں پامال ترے شہر کی راہوں کی طرح
ذکر کرتے ہیں مرا لوگ گناہوں کی طرح
مجھ کو رسوا نہ کرو ورنہ زمانے میں کبھی
تم بھی آوارہ پھروگے مری آہوں کی طرح
کس کو اس دورِ تمدن میں ہے فرصت کہ سنے
کتنے نغمےہیں مرے لب پہ کراہوں کی طرح
گردشِ وقت زرا اُن کی خبر بھی رکھنا
مجھ سے کچھ لوگ ملے تھے ابھی شاہوں کی طرح
حلقۂ غم ہی سہی،حلقۂ  آہن ہی سہی
کچھ تو حائل ہو گلے میں تری باہوں کی طرح
ــــــــــــ
شہر در شہر ملے گی مرے افکار کی دھوپ
مرے اشعار ہیں تیرے لب و رخسار کی دھوب
جانے کس شہر ِتمنّامیں یہ لا یا ہے جنوں
کہیں تلوار کے سائے ،کہیں تلوار کی دھوپ
تیری آنکھوں سے نمایاں ہے تمنّا بن کر
میرے ہونٹوں پہ لرزتی ہوئی اظہار کی دھوپ
ــــــــــــــــ
ہر اک موڑ پہ لاشیں مہک رہی ہیں ابھی
میں کیا کروں گا بھلا تیرےجسم کی خوشبو
چمن چمن ابھی ہوتا ہے تذکرہ میرا
ہر ایک زخم ِ وفا اب بھی دے رہا ہے لہو
مسائلِ غمِ ہستی سلجھ ہی جائیں گے
جنوں کرے گا کبھی خونِ آرزو سے وضو
ـــــــــــــــــــــــــ
یہ اسیرِ عقل و دانش جو بڑھیں گماں سے آگے
میرے نقش پا ملیں گے مہ و کہکشاں سے آگے
میں بھٹک رہا ہوں ابتک رہِ منزلِ وفا میں
کبھی کارواں کے پیچھے کبھی کارواں سے آگے
ـــــــــــــــــــــ
موت سے لوگ کیوں گریزاں ہیں
موت بھی بے ثبات ہے جیسے
کون پہچانتا ہے اب کس کو
روز روشن بھی رات ہے جیسے
کسی صورت بسَر نہیں ہوتی
زندگی غم کی رات ہے جیسے
تم مرے ساتھ ساتھ چلتے ہو
ہم سفر کائنات ہے جیسے
دل حسینی ارے معاذ اللہ
توبھی ننگِ حیات ہے جیسے
ـــــــــــــــــــ
ترے نثار میں اے نرگسِ خمار آلود
جو ہو سکے تو کبھی مجھ کو ہوشیار نہ کر
نہ صرف آئے تری پاکدامنی پہ کبھی
مری خطا کو سرِ بزم آسکار نہ کر
ابھی ہے دور بہت کاروان فصلِ بہار
ابھی سے اپنے گریباں کو تار تار نہ کر
پکارتا ہے تجھے آج تیرا مستقبل
غمِ جہاں سے گزر فکر روزگار نہ کر
ـــــــــــــــ
میخانے میں آبیٹھے ہیں تھک کر غم کےمارے لوگ
در در ٹھوکر کب تک کھاتے آخر یہ بیچارے لوگ
ــــــــــــــــــ
اہلِ دانش تم  نہ سمجھو  گے جنوں کا مرتبہ
ہم نے اکثر توڑ ڈالی ہے فصیلِ ماہتاب
ــــــــــــــــــ
دیوانہ مجھے  نہ سمجھو  اے شہر کے لو گو!
ماراہوا غربت کا ہوں گھر ڈھونڈ رہا ہوں 
Unlabelled

Added on 1:55 AM