جناب رام کمار سنگھ فہیم

نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        رام کمار سنھگہ
تخلّص۔۔۔۔۔۔        فہیم
سن پیدائس۔۔      1909
تلمیذ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔       جناب بسمل الٰہ آبادی

صاف رنگ ،موزوں قد،خوبصورت جسم،جامہ زیب،طر حدار اور خوش اخلاق، اردو زبان وادب کو ہندوستانی تہزیب کا مشترک سرمایہ سمجھنے والے شاعر کے چہرے پر احساس کی تھکن کے آثار نمایا ں ہو چلےہیں لیکن اپنی حوصلہ مندی اور خوشی مزاجی کو برقرار رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
بھارمیں تو لبِ شوق پر تبّسم تھا
خزاں میں کس لئے آنکھوں کو اشکبار کروں
اردو آپ کی مادری زبان ہے،آپ اس خانوادے کے فرزند ہیں جو ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کا رعلمبردار رہا، آپ کے والد محترم شری مہیش نرائن سنکھ اردو فارسی کے عالم تھے اور مڈل اسکول مئو کے ہیڈ مدرس تھے،
     1922ء میں آپ نے مڈل اسکول مئو سے پاس کیا۔ 1928ء میں مشن ہائی اسکول سے انٹرنس پاس کیا،1930ء میں کرپچین کالج الٰہ آباد سے انڑر میڈیٹ کیا ۔شروع سے آپ کے خاض مضامین اردو فارسی رہےکچھ دنوں تک یونیور سٹی میں بھی زیر تعلیم رہے لیکن اپنے والد محترم کے انتقال کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے

سکوں آگیں بہت اب اضطراب دل کا عالم ہے
کہ ہر زخمِ جگر آسودہ تکلیفِ مرحم ہے
غزرجاتے ہیں اکثر پاس سے نا آشنا یانہ
یہ لطفِ کم نگاہی بھی مگر اے عشق کیا کم ہے
کسے ہے ہوش حس لالہ گل کے نظارہ کا
چمن میں تو ابھی گزری بہاروں کا ہی ماتم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبوں سے آہ نکلے اشک آنکھوں سے رواں کیوں ہو
محبت ضبط کی خوگر ہے رازِ دل عیاں کیوں ہو
الگ ہے آسماں سے اسکا اندازِ ستم گاری
زمینِ کوئے قاتل ہم سوادِ آسماں کیوں ہو
ترے دیدار سے تو جان و دل کی شمع روشن ہے
ترے چہرے سے میرا رنگ بیتابی عیاں کیوں ہو
فہیم خوش بیاں بھی شیفتہ ہے طرز غالب کا
جہانِ شعر میں غالب سا کوئی نکتہ داں کیوں ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک شعاع آفتابِ تازہ اسکی ذات تھی
کتنی پیاری دوستو اس کے لبوں کی بات تھی
بات کہنے کی ہے وہ فرذند"موتی لال" تھا
ور نہ اپنی ذات سے وہ خود جواہر لعل تھا
وہ جوہر لال وہ گاندھی کا سچا جا نشیں
اسکی صورت اسکی سیرت اسکی فطرت تھی حسیں
شکلِ انسانی میں تھا وہ ملک کا اک دیوتا
زندگی میں دیوتاؤں کی طرح پوجا گیا
جنگ کا دل سے مخالف امن کا پیغامبر
قوم کے ہاتھوں میں تھا بنکر محبت کا سپر
اس نے بھارت کو سمو ڈالا تھا اپنی ذات میں
درد تھا جمہوریت کا اس کی اک اک بات میں

Unlabelled

Added on 5:40 AM

حضرت مولانا فیض الحسن صاحب فیض اعظمی

نام :      فیض الحسن،
  تخلص  :    فیض
 سن پیدائش : 1896 ء
تلمیذ :ابتدا میں حضرت وسیم خیر آبادی سے اور بعد میں حضرت نواب جعفرعلی خاں صاحب اثر لکھنوی سے مشورۂ سخن کرتے رہے۔
سرخ وسفید رنگ،موزوں قد ،نورانی چہرہ،سفید ریش، سفیدپوش،نفاست پسند، پاک سیرت، نرم گفتار،بیحد خلیق اور شفیق۔بڑھا پے میں جب جوانی کی یاد ستاتی ہے تو بڑے پرسوز انداز میں کہتے ہیں۔
مقبول مناجات نہیں ہوسکتی
منظور ہر اک بات نہیں ہو سکتی
اے عہدِ جوانی کی سہانی راتو
اب تم سے ملاقات نہیں ہوسکتی
ابتدائی تعلیم مدرسہ دارلعلوم مئو سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ سبحانیہ الٰہ  آبادسے ملّا فاضل کی سند فراغت حاصل کی۔ اردو،فارسی،اور عربی کے عالم ہیں۔ ادب کے رسیا،عروض کے ماہر، اردو کے باکمال شاعر پوری عمر درس و تدریس میں گزری ۔عربی مدارس میں تعلیم حاصل کی اور انگریزی اسکول میں تعلیم دیتے رہے ۔ملازمت کی ابتدا1921ء  میں ہوئی۔جون پور،سہارن پور،فرخ آباد،غازی پوراور مرزاپور گورمنٹ اسکولوں میں بحیثیت استاد ملازم رہے1955ء میں ریٹائر ہونے کے بعد کپڑوں کی ایک معمولی دوکان کرلی لیکن کمزور جسم اور خرابی صحت کی وجہ سے یہ تجارتی سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکا۔
 فیض صاحب شاعری کی ہر صنف میں محارت رکھتے ہیں نظمیں ہو یا غزلیں، رباعیاں ہوں یا قطعات اور قصیدے سب کچھ بڑے پیارے انداز میں کہتے ہیں۔
بیان کی شائستگی، زبان کی صفائی،لہجہ کا گداز، انداز فکر کی گہرائی تو آپ کے کلام میں مل سکتی ہے لیکن سطحیت اور ابتدال جیسی کوئی چیز نہیں مل سکتی   
حضرت اصغر  گونڈوی سے آپ کو گہری عقیدت ہے۔ان کی شاعری سے  بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں جس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ملاہے اصغرِ مرحوم سے کچھ فیضِ روحانی
شرار معنوی لفظوں میں رقصا دیکھ لیتا ہوں

فیض  وہ اصغر مرحوم کا رنگیں انداز
اس کی وہ شوخیِ گفتار کہاں سے لاؤں
بطورِ   نمونہ کلام کے کچھ اقتباسات ملا حظہ کیجئے۔
انیسِ درد محبت، شریک حالِ خراب
تمھاری یاد بھی ہے کتنی آشنا میری
میں اور سنگِ درِ دوست پر جبیں سائی
خداکی شان کہاں لے گئی خطا میری
ــــــــــــ
دلِ بیتاب میں جلوہ ہے اسکے روئے تاباں کا
اِک آئینہ ہے جس میں عکس ہے مہرِدرخشاں کا
اسی کے دم سے قائم نغمہائے سازِ ہستی ہیں
علوِ مرتبہ دیکھو تو مشتِ خاک انساں کا
دلِ اندوہ گیں جسکا رہین سوزِ الفت ہے
حقیقت میں یہی مفہوم ہے اس لفظِ انساں کا
ـــــــــــــــــ
وہ دل ہے اب نہ خارِ تمنا کی وہ خلش
اچھا ہوا کہ یاس نے سب کچھ مٹادیا
ہربرگِ گل سے صاف نمایاں ہے حسن  دوست
رنگینیِ بہار نے کیا گل کھلا دیا
ــــــــــــــ
جلوئہ  حسنِ رخ یار ہے چلمن کے قریب
روشن اک آگ سی ہے وادئ ایمن کے قریب
پھونک دیگی اسے خود آہِ جگر سوز مِری
کوندتی پھرتی ہے کیوں برق نشیمن کے قریب
جی میں آتا ہے تصّور کی بلائیں لے لوں
آج پاتا ہوں کسی کو رگِ گردن کےقریب
ہاں لگے ہاتھ جنوں اسکی خبر بھی لے لے
بڑھ کے آیا ہے گریباں مِرے دامن کے قریب


Unlabelled

Added on 1:57 AM


ڈاکٹر ایم اے دل حسینی
سن پیدائش : 1940ء
سن وفات: 2009 ء
نام : مختار احمد 
تخلص: دل حسینی
تلمیذ : حضرت منیف اعظمی ، اثر انصاری 

صاف رنگ ،بھرا ہوا صحتمند جسم،موزوں قد،کشادہ پیشانی،خوش پوش،جواں سال شاعر اور صحافی جس نے اپنے ضلع اعظم گڑھ میں ناموری حاصل کی اور فخر یہ طور پر اپنے اعظمی ہونے کا اعلان کرتا ہے۔
سہیل  کی سرزمیں سے ابھرا یہ آسمانِ ادب کا تارا
یہ شوخ  شبلی کا ہم وطن ہے یہ دل حسینی بھی اعظمی ہے
ابتدائی تعلیم اردو فارسی کی مقامی درسگاہ میں حاصل کی بمبئی اوریئنٹل کالج سے آنرز اِن اردوکیاہے۔
کچھ دنوں مدرسہ بحرالعلومئو میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے،پھر ایک شبینہ اسکول ”روحِ ادب“ قائم کیا جسکے وہ صدر رہے۔
ہومیو پیتھ میں ڈگری حا صل کرنے کے بعد اپنا نجی دوخانہ کھول رکھا تھا۔شاعر اور ڈاکٹر کے علاوہ ماہنامہ ”ہم چشم“ کے ایڈیٹر بھی رہے۔پندرہ روزہ اخبار ”بنکر ٹائمز “بھی نکالتے رہے۔ اس طرح مختلف فنون میں کامیابی حاصل تھی۔
غزلیں بڑی پیاری کہتے ہیں ،شعروادب میں اپنا مقام رکھتےہیں۔
نظمیں بھی بڑی رواں دواں کہتے ہیں،زبان و بیان میں بڑی صفائی اور شائستگی ہے،فکروفن میں گہرائی ہے۔
نمونۂ  کلام ملاحظہ کیجئے۔

میں ہوں پامال ترے شہر کی راہوں کی طرح
ذکر کرتے ہیں مرا لوگ گناہوں کی طرح
مجھ کو رسوا نہ کرو ورنہ زمانے میں کبھی
تم بھی آوارہ پھروگے مری آہوں کی طرح
کس کو اس دورِ تمدن میں ہے فرصت کہ سنے
کتنے نغمےہیں مرے لب پہ کراہوں کی طرح
گردشِ وقت زرا اُن کی خبر بھی رکھنا
مجھ سے کچھ لوگ ملے تھے ابھی شاہوں کی طرح
حلقۂ غم ہی سہی،حلقۂ  آہن ہی سہی
کچھ تو حائل ہو گلے میں تری باہوں کی طرح
ــــــــــــ
شہر در شہر ملے گی مرے افکار کی دھوپ
مرے اشعار ہیں تیرے لب و رخسار کی دھوب
جانے کس شہر ِتمنّامیں یہ لا یا ہے جنوں
کہیں تلوار کے سائے ،کہیں تلوار کی دھوپ
تیری آنکھوں سے نمایاں ہے تمنّا بن کر
میرے ہونٹوں پہ لرزتی ہوئی اظہار کی دھوپ
ــــــــــــــــ
ہر اک موڑ پہ لاشیں مہک رہی ہیں ابھی
میں کیا کروں گا بھلا تیرےجسم کی خوشبو
چمن چمن ابھی ہوتا ہے تذکرہ میرا
ہر ایک زخم ِ وفا اب بھی دے رہا ہے لہو
مسائلِ غمِ ہستی سلجھ ہی جائیں گے
جنوں کرے گا کبھی خونِ آرزو سے وضو
ـــــــــــــــــــــــــ
یہ اسیرِ عقل و دانش جو بڑھیں گماں سے آگے
میرے نقش پا ملیں گے مہ و کہکشاں سے آگے
میں بھٹک رہا ہوں ابتک رہِ منزلِ وفا میں
کبھی کارواں کے پیچھے کبھی کارواں سے آگے
ـــــــــــــــــــــ
موت سے لوگ کیوں گریزاں ہیں
موت بھی بے ثبات ہے جیسے
کون پہچانتا ہے اب کس کو
روز روشن بھی رات ہے جیسے
کسی صورت بسَر نہیں ہوتی
زندگی غم کی رات ہے جیسے
تم مرے ساتھ ساتھ چلتے ہو
ہم سفر کائنات ہے جیسے
دل حسینی ارے معاذ اللہ
توبھی ننگِ حیات ہے جیسے
ـــــــــــــــــــ
ترے نثار میں اے نرگسِ خمار آلود
جو ہو سکے تو کبھی مجھ کو ہوشیار نہ کر
نہ صرف آئے تری پاکدامنی پہ کبھی
مری خطا کو سرِ بزم آسکار نہ کر
ابھی ہے دور بہت کاروان فصلِ بہار
ابھی سے اپنے گریباں کو تار تار نہ کر
پکارتا ہے تجھے آج تیرا مستقبل
غمِ جہاں سے گزر فکر روزگار نہ کر
ـــــــــــــــ
میخانے میں آبیٹھے ہیں تھک کر غم کےمارے لوگ
در در ٹھوکر کب تک کھاتے آخر یہ بیچارے لوگ
ــــــــــــــــــ
اہلِ دانش تم  نہ سمجھو  گے جنوں کا مرتبہ
ہم نے اکثر توڑ ڈالی ہے فصیلِ ماہتاب
ــــــــــــــــــ
دیوانہ مجھے  نہ سمجھو  اے شہر کے لو گو!
ماراہوا غربت کا ہوں گھر ڈھونڈ رہا ہوں 
Unlabelled

Added on 1:55 AM


بسمل انصاری 
سن پیدائش :1938
سن وفات : 2005
تلمیذ:اثرانصاریؔ،       فضاؔ ابن فیضی
سانولارنگ،موزوقد،گدازبدن،پرسکون آنکھیں،خوش پوش،خوش اخلاق،علم دوست اور ادب نواز شاعر۔
جامعہ مفتاح العلوم مئو سے عربی فارسی اور اردو کی تعلیم حا صل کی درس نظامیہ کی سند فراغت تو نہیں حاصل کرسکے لیکن اچھی استعداد رکھتے ہیں۔تعلیم چھوڑنے کے بعد شعرو سخن میں دلچسپی پیداہوئی ،طبیعت بڑی موزوں پائی ہے، اہلِ فن کی صحبت اور کتب بینی کے شوق نے شاعرانہ مزاج میں بہت جلد نکھار پیدا کردیا،رنگ سازی کا کاروبار شروع کیاتو رنگ آمیزی دلکش بناکر پیش کرتے ہیں،پاکیزہ مزاج اور نکھرا ہوا ذوق رکھتے ہیں جس کا انھیں خود احساس ہے،کہتے ہیں۔
بسملؔ  جہان شعرو ادب کے افق پہ ہم
خورشید بنکے ابھرے ستاروں کے درمیاں
ــــــــــــــــــــ
کلام میں بڑی صفائی اور دلکشی ہے، اسلوب فکر میں نیا پن بھی ہے اور پختگی بھی۔
بطور نمونہ ان کےکلام کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔

کیا تجربہ ہوان کو زمانے کی دھوپ کا
جو زلفِ دلبراں کی پناہوں میں رہ گئے
ہم تیز رَو تھے ہو گئے منزل سے ہمکنار
یارانِ سست گام تو راہوں میں رہ گئے
کیا لوگ تھے کہ بن کے رہے فاتحِ جنوں
ہم عشق اور ہوس کے دو راہوں میں رہ گئے
وہ کیا رکے کہ گردشِ دوراں بھی رک گئی
لمحے سمٹ کے حسن کی باہوں میں رہ گئے
ــــــــــــــــــ
کلی کی ،پھول کی ،سروسَمن کی بات کرتے ہیں
چمن والے ابھی حسن و چمن کی بات کرتے ہیں
اسی کو لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹا منھ بڑی باتیں
یہ دیوانے بھی  کس غنچہ دہن کی بات کرتے ہیں
بہت دشوار ہے قیدِ روایت سے نکلنا بھی
نئے میخوار صہبائے کہن کی بات کرتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــ
مجھے بھی فکر نہیں اپنے چاک دامن کی
تری طرف سے بھی سعی رفو نہیں ہوتی
وہ جب تھے دور تو دل میں تھے حوصلے کیا کیا
قریب آئے تو کچھ گفتگو نہیں ہوتی
اب اس مقام پہ لایا ہے عشق خانہ خراب
سکونِ دل کی جہاں آرزو نہیں ہوتی
وہ آدمی تو نہیں آدمی کا دشمن ہے
خلوص اور وفا جس کی خو نہیں ہوتی
ـــــــــــــ
Unlabelled

Added on 2:15 AM


استاذ الشعراء حضرت فضا ابن فیضی

سن پیدائش 1922
سن وفات 2009
نام:فیضٰ لحسن،تخلض۔فضاؔ،خلف رشید جناب مولوی منظورا لحسن صاحب
تلمیذ:حضرت مولانا فیضٰ لحسن صاحب فیضؔ
                 صاف رنگ، سوکھا ہوا کمزور بدن،موزوقد،معصوم چہرہ،منکسرالمزاج، آنکھوں پر دبیز شیشہ کی عینک، پست آواز بلند فکر ایک عہد آفریں شاعر جو برِّ صغیر ہند و پاک کے لئے محتاجِ تعارف نہیں ۔اپنے بارے میں خود ہی کہتے ہیں۔

کانٹا ہو مگر رنگ و بو رکھتا ہوں
پیاسا ہوں مگر جوشِ سبو رکھتا ہوں
شاداب نہیں گو مرا پیکر لیکن
نبضوں میں بہاروں کا لہو رکھتا ہوں

مدرسہ فیض عام مئو کے فارغ التحصیل ہیں۔منشی،مولوی،عالم و فاضل ہیں۔ اردو فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔فنِ عروض کے  کےماہر،شعروادب کے دلدادہ،بڑے پختہ کار اور صاحب نظر ہیں۔مئو ناتھ بھنجن کے شاعروں اور ادیبوں کے مذاق کی بلندی اور شائستگی آپ ہی کی دین ہے۔
نظموں اور غزلوں میں آپ کے جدید تجربے، نئی نئی تر کیبیں، خوبصورت بندشیں،دلآویز تشبیہیں اردو ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
زند گی اور اس کی نزاکتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں،دیکھئے کتنے حسین انداز میں کہتے ہیں۔

چھونے والے تو اسے موجِ صبا بن کے نہ چھو
زندگی پھول کی پتیّ ہےبکھر جائے گی

زبان و بیان کی شوخی اور طرزِ ادا کی جدّت ملاحظہ کیجئے۔

یہ موجِ رنگ کہیں پیرہن سے رکتی ہے
بدن تمام ہے سیّال چاندنی کی طرح

اس نحیف و نا تواں شاعر کا یہ حوصلہ بھی قابلِ رشک ہےجو دوسروں کے غم کو بھی اپنا ہی غم سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔

میں وہ سر گستۂ آلام زمانہ ہو فضاؔ
غم کسی کا ہو مرے رُخ سے عیاں ہوتا ہے

صرف اتناہی نہیں بلکہ نہایت جرأت کے ساتھ یہ بھی کہہ گزرے کہ۔

پھونک دے اے تپِ عصرِ حاضر مجھے
لوگ بے چین ہیں روشنی کے لئے 

اس کے با و جود جب عوام کی بے حِسی اور نا قدر شناسی پر نگاہ پڑتی ہے تو بڑے افسوس کے ساتھ اپنے تاثرات کا یوں اظہار کرتے ہیں کہ۔

یہ سوچتا ہوں کہ ہے کوئی پڑھنے والا بھی
مرے قلم نے تو لکھنے کو لکھ دیا ہے بہت

اور یہ حقیقت ہے کہ اپنے ہمعصروں میں جناب فضا ابن فیضیؔ نے جتنا کچھ لکھ دیا ہے ابتک کسی نے نہیں لکھا۔

نمونہ کلام

Unlabelled

Added on 11:11 AM

وقارِ اردو 

نہ بجھا ہے نہ بجھے گا یہ چراغِ اردو 
آج ہمدوشِ ثریاہے دِماغ اردو 
بُو الہوس پائیں گے کیا خاکِ سُراغ اردو 
لہلہائے اسی طرح یہ باغ اردو 

ہند کی شان ہے یہ عظمت گوتم کی طرح 
اب بھی تابندہ ہے پیشانیٔ مریم کی طرح 

بزمِ خسرو میں جلی شمع تمنا بنکر 
درس اخلاق دیا ہے کہیں گیتا بنکر 
کبھی گوپاک کی بنسی کبھی رادھا بنکر 
رام کا ساتھ دیا ہے کبھی سیتا بنکر 

مشتری بن کے قطب شاہ کے گھر تک پہونچی 
بزمِ اربابِ سخن اہل نظر تک پہونچی 

کبھی دلیّ کبھی پنجاب کو آباد کیا 
رونقِ شامِ اودھ صبح بنارس کی ضیا
عالم وجد سرکی جو ترے سر کی ردا 
رنگ و نکہت سے معطر ہوئی پٹنے کی فضا 

شوخیاں میر نے سودا نے شرارت دیدی 
ناز مومن نے تو غالب نے جسارت دیدی 

ذوق نے ساغرِ خورشید میں ڈھالا تجھکو 
خونِ دل دے کے ظفر شاہ نے پالا تجھکو 
اور ہر گام پہ ناسخ نے سنبھالا تجھکو 
فکر آتش نے دیا ایسا اُجالا تجھکو 

ڈھل گئی نور کے سانچے میں جوانی تیری 
پاگیا میر حسن سحر بیانی تیری 

مصحفی نے ترا انداز تکلم سمجھا 
تیرے دامن سے ہے وابستہ بہارِ انشا
بزمِ اقبال میں روشن تری حکمت کا دیا 
کوئی چکبست سے پوچھے ترا پیمانِ وفا 

تیری مستی کا اثر دیدۂ سرشار میں ہے 
تیری سطوت کا نشاں جوش کے افکار میں ہے 

پوچھئے حضرتِ حالی سے وقارِ اردو 
خیمہ زن باغ میں شبلی کے بہار اردو 
سرسے کیفی کے نہ اترے گا خمارِ اردو 
دل حسینی بھی ازل سے ہے نثار اردو 

خوشہ چیں ہیں اسی گلشن کے منیف اور سہیل 
سیکڑوں زندۂ جاوید ہیں اردو کی طفیل 

Dr. Dil Husaini


علاج زخم دل داغدار کرنہ سکے 
چمن میں رہ کے بھی ذکر بہار کر نہ کسے 

خیال تھا کہ تجھے بھول جائیں گے اے دوست 
مگر یہ جبر بھی ہم اختیار کر نہ سکے 

وہ زخم دل نہیں سرمایۂ بہارِ جنوں 
فضائے دہر کو جو مشکبار کر نہ سکے 

فریب کھاگئے پہلے قدم پہ جو وہ لوگ 
کسی کی بات کا بھی اعتبار کرنہ سکے 

غرور توڑ دیا وقت کے خداؤں کا 
جبینِ شوق کو ہم شرمسار کر نہ سکے 

ٹپک رہی ہے ترا درد بن کے آنکھوں سے 
وہ آرزو جسے ہم آشکار کر نہ سکے 

رہِ طلب میں وہی کا میاب ہیں اے دوست 
جو فکرِ گردشِ لیل و نہار کر نہ سکے 

چمن سے دور ہی رکھئے اب ایسے مالی کو 
کہ جو فضائے چمن ساز گار کر نہ سکے 

دیا نہ درد تہِ جام تک بھی دلؔ اس نے 
مگر گلہ کبھی ہم میگسار کر نہ سکے 

(ڈاکٹر دل حسینیؔ)


حمد باری تعالیٰ
تو ہست تو ہی بود، تیری ذات لاشریک
دائم تراوجود، تیری ذات لاشریک

تو رازق و کریم، تیرانام کبریا
ہم ہیں تیرے حمود ، تیری ذات لاشریک

پروردگار خالق و پست و بلند تو
بے بندش و قیود ، تیری ذات لاشریک

یہ ساری کائنات ، تیری کن فکاں کا نقش
ہرنقش خوش نمود ، تیری ذات لاشریک

رنگ ظہور میں ترے امکان و عرش گم
بے سمت، بے حدود تیری ذات لاشریک

انساں کی کیا مجال تیری رحمتوں سے ہے
ہر عقد کی کشود، تیری ذات لاشریک

بھٹکے جو تیری راہ سے غارت ہوئے تمام
کیا عاد ، کیا ثمود ، تیری ذات لاشریک

میرے لئے ہی اشہد ان لاالٰہ کا ورد
سرمایۂ سعود تیری ذات لاشریک

ہیں شش جہت سے نغمہ ٔ وحدت کی بارشیں
بے بربط و سرود تیری ذات لاشریک

آئینۂ مشاہدۂ غیب تیرا عکس
گنجینۂ شہود تری ذات لاشریک

تیرے لئے رکوع بھی ، میرا قیام بھی
تو لائق سجود تیری ذات لاشریک

ہے باوضو قلم بھی کہ لکھتا ہوں تیری حمد
تور رب ہست و بود تیری ذات لاشریک

توفیق دے فضاؔ   کوکہ تیرے حبیب ؐ پر
پڑھتا رہے درود تیر ذات لاشریک

فضاؔ ابن فیضی