Dr M A Dil Husaini


ڈاکٹر ایم اے دل حسینی
سن پیدائش : 1940ء
سن وفات: 2009 ء
نام : مختار احمد 
تخلص: دل حسینی
تلمیذ : حضرت منیف اعظمی ، اثر انصاری 

صاف رنگ ،بھرا ہوا صحتمند جسم،موزوں قد،کشادہ پیشانی،خوش پوش،جواں سال شاعر اور صحافی جس نے اپنے ضلع اعظم گڑھ میں ناموری حاصل کی اور فخر یہ طور پر اپنے اعظمی ہونے کا اعلان کرتا ہے۔
سہیل  کی سرزمیں سے ابھرا یہ آسمانِ ادب کا تارا
یہ شوخ  شبلی کا ہم وطن ہے یہ دل حسینی بھی اعظمی ہے
ابتدائی تعلیم اردو فارسی کی مقامی درسگاہ میں حاصل کی بمبئی اوریئنٹل کالج سے آنرز اِن اردوکیاہے۔
کچھ دنوں مدرسہ بحرالعلومئو میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے،پھر ایک شبینہ اسکول ”روحِ ادب“ قائم کیا جسکے وہ صدر رہے۔
ہومیو پیتھ میں ڈگری حا صل کرنے کے بعد اپنا نجی دوخانہ کھول رکھا تھا۔شاعر اور ڈاکٹر کے علاوہ ماہنامہ ”ہم چشم“ کے ایڈیٹر بھی رہے۔پندرہ روزہ اخبار ”بنکر ٹائمز “بھی نکالتے رہے۔ اس طرح مختلف فنون میں کامیابی حاصل تھی۔
غزلیں بڑی پیاری کہتے ہیں ،شعروادب میں اپنا مقام رکھتےہیں۔
نظمیں بھی بڑی رواں دواں کہتے ہیں،زبان و بیان میں بڑی صفائی اور شائستگی ہے،فکروفن میں گہرائی ہے۔
نمونۂ  کلام ملاحظہ کیجئے۔

میں ہوں پامال ترے شہر کی راہوں کی طرح
ذکر کرتے ہیں مرا لوگ گناہوں کی طرح
مجھ کو رسوا نہ کرو ورنہ زمانے میں کبھی
تم بھی آوارہ پھروگے مری آہوں کی طرح
کس کو اس دورِ تمدن میں ہے فرصت کہ سنے
کتنے نغمےہیں مرے لب پہ کراہوں کی طرح
گردشِ وقت زرا اُن کی خبر بھی رکھنا
مجھ سے کچھ لوگ ملے تھے ابھی شاہوں کی طرح
حلقۂ غم ہی سہی،حلقۂ  آہن ہی سہی
کچھ تو حائل ہو گلے میں تری باہوں کی طرح
ــــــــــــ
شہر در شہر ملے گی مرے افکار کی دھوپ
مرے اشعار ہیں تیرے لب و رخسار کی دھوب
جانے کس شہر ِتمنّامیں یہ لا یا ہے جنوں
کہیں تلوار کے سائے ،کہیں تلوار کی دھوپ
تیری آنکھوں سے نمایاں ہے تمنّا بن کر
میرے ہونٹوں پہ لرزتی ہوئی اظہار کی دھوپ
ــــــــــــــــ
ہر اک موڑ پہ لاشیں مہک رہی ہیں ابھی
میں کیا کروں گا بھلا تیرےجسم کی خوشبو
چمن چمن ابھی ہوتا ہے تذکرہ میرا
ہر ایک زخم ِ وفا اب بھی دے رہا ہے لہو
مسائلِ غمِ ہستی سلجھ ہی جائیں گے
جنوں کرے گا کبھی خونِ آرزو سے وضو
ـــــــــــــــــــــــــ
یہ اسیرِ عقل و دانش جو بڑھیں گماں سے آگے
میرے نقش پا ملیں گے مہ و کہکشاں سے آگے
میں بھٹک رہا ہوں ابتک رہِ منزلِ وفا میں
کبھی کارواں کے پیچھے کبھی کارواں سے آگے
ـــــــــــــــــــــ
موت سے لوگ کیوں گریزاں ہیں
موت بھی بے ثبات ہے جیسے
کون پہچانتا ہے اب کس کو
روز روشن بھی رات ہے جیسے
کسی صورت بسَر نہیں ہوتی
زندگی غم کی رات ہے جیسے
تم مرے ساتھ ساتھ چلتے ہو
ہم سفر کائنات ہے جیسے
دل حسینی ارے معاذ اللہ
توبھی ننگِ حیات ہے جیسے
ـــــــــــــــــــ
ترے نثار میں اے نرگسِ خمار آلود
جو ہو سکے تو کبھی مجھ کو ہوشیار نہ کر
نہ صرف آئے تری پاکدامنی پہ کبھی
مری خطا کو سرِ بزم آسکار نہ کر
ابھی ہے دور بہت کاروان فصلِ بہار
ابھی سے اپنے گریباں کو تار تار نہ کر
پکارتا ہے تجھے آج تیرا مستقبل
غمِ جہاں سے گزر فکر روزگار نہ کر
ـــــــــــــــ
میخانے میں آبیٹھے ہیں تھک کر غم کےمارے لوگ
در در ٹھوکر کب تک کھاتے آخر یہ بیچارے لوگ
ــــــــــــــــــ
اہلِ دانش تم  نہ سمجھو  گے جنوں کا مرتبہ
ہم نے اکثر توڑ ڈالی ہے فصیلِ ماہتاب
ــــــــــــــــــ
دیوانہ مجھے  نہ سمجھو  اے شہر کے لو گو!
ماراہوا غربت کا ہوں گھر ڈھونڈ رہا ہوں 

0 comments:

Post a Comment