Bismil Ansari


بسمل انصاری 
سن پیدائش :1938
سن وفات : 2005
تلمیذ:اثرانصاریؔ،       فضاؔ ابن فیضی
سانولارنگ،موزوقد،گدازبدن،پرسکون آنکھیں،خوش پوش،خوش اخلاق،علم دوست اور ادب نواز شاعر۔
جامعہ مفتاح العلوم مئو سے عربی فارسی اور اردو کی تعلیم حا صل کی درس نظامیہ کی سند فراغت تو نہیں حاصل کرسکے لیکن اچھی استعداد رکھتے ہیں۔تعلیم چھوڑنے کے بعد شعرو سخن میں دلچسپی پیداہوئی ،طبیعت بڑی موزوں پائی ہے، اہلِ فن کی صحبت اور کتب بینی کے شوق نے شاعرانہ مزاج میں بہت جلد نکھار پیدا کردیا،رنگ سازی کا کاروبار شروع کیاتو رنگ آمیزی دلکش بناکر پیش کرتے ہیں،پاکیزہ مزاج اور نکھرا ہوا ذوق رکھتے ہیں جس کا انھیں خود احساس ہے،کہتے ہیں۔
بسملؔ  جہان شعرو ادب کے افق پہ ہم
خورشید بنکے ابھرے ستاروں کے درمیاں
ــــــــــــــــــــ
کلام میں بڑی صفائی اور دلکشی ہے، اسلوب فکر میں نیا پن بھی ہے اور پختگی بھی۔
بطور نمونہ ان کےکلام کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔

کیا تجربہ ہوان کو زمانے کی دھوپ کا
جو زلفِ دلبراں کی پناہوں میں رہ گئے
ہم تیز رَو تھے ہو گئے منزل سے ہمکنار
یارانِ سست گام تو راہوں میں رہ گئے
کیا لوگ تھے کہ بن کے رہے فاتحِ جنوں
ہم عشق اور ہوس کے دو راہوں میں رہ گئے
وہ کیا رکے کہ گردشِ دوراں بھی رک گئی
لمحے سمٹ کے حسن کی باہوں میں رہ گئے
ــــــــــــــــــ
کلی کی ،پھول کی ،سروسَمن کی بات کرتے ہیں
چمن والے ابھی حسن و چمن کی بات کرتے ہیں
اسی کو لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹا منھ بڑی باتیں
یہ دیوانے بھی  کس غنچہ دہن کی بات کرتے ہیں
بہت دشوار ہے قیدِ روایت سے نکلنا بھی
نئے میخوار صہبائے کہن کی بات کرتے ہیں
ـــــــــــــــــــــــ
مجھے بھی فکر نہیں اپنے چاک دامن کی
تری طرف سے بھی سعی رفو نہیں ہوتی
وہ جب تھے دور تو دل میں تھے حوصلے کیا کیا
قریب آئے تو کچھ گفتگو نہیں ہوتی
اب اس مقام پہ لایا ہے عشق خانہ خراب
سکونِ دل کی جہاں آرزو نہیں ہوتی
وہ آدمی تو نہیں آدمی کا دشمن ہے
خلوص اور وفا جس کی خو نہیں ہوتی
ـــــــــــــ

0 comments:

Post a Comment