چہروں پر سب کے گرد سفر چھوڑ جاؤنگا (فضا ابن فیضی)

غزل

چہروں پر سب کے گرد سفر چھوڑ جاؤنگا
جاتے ہوئے نشان سفر چھوڑ جاؤنگا

گمراہ کر سکے گا نہ کوئی ورق تمہیں
میں لفظ لفظ اپنی خبر چھوڑ جاؤنگا

یہ غم نہ کر ستائے گی لمبے سفر کی دھوپ
ہر راستے میں ، کوئی شجر چھوڑ جاؤنگا

راتوں کی داستاں ہوں ، مگر ہوں گا جب تمام
لوحِ افق پہ حرف سحر چھوڑ جاؤنگا

ایسا نہیں کہ لوگ تجھے بھول جائیں گے
میں اپنے پیچھے تیری خبر چھوڑ جاؤنگا

بکھرا جو میں تو باد صبا ہوکہ بوئے گل
سب کو چمن خاک بسر چھوڑ جاؤنگا

مایوس ہوں فضاؔ نہ مرے پس روانِ شوق
خالی کوئی تو راہ گزر چھوڑ جاؤنگا

(فضاؔ ابن فیضی مئو)

0 comments:

Post a Comment