بہار آئے گی گل کھلیں گے مگر نہ وہ دلکشی رہے گی Dr. Dil Husaini

غزل
بہار آئے گی گل کھلیں گے مگر نہ وہ دلکشی رہے گی
تمہیں اگر روبرو نہ ہوگے تو پھر ہمیں کیا خوشی رہے گی

کسے خبر تھی کہ دل لگا کر ہماری یہ زندگی رہے گی
ہمیں سے بر ہم رہیں گے وہ بھی ہمیں سے دنیا کھِنچی رہے گی

تباہ کر دیں گے اہلِ گلشن خود اپنے ہاتھوں نظام گلشن
یہی جو عالم رہا خرد کا یہی جو دیوانگی رہے گی

نہ چھپ سکے گا یہ راز ِالفت عیاں کسی دن ضرور ہوگا
ہماری آنکھوں سے روز یوں ہی جو کہکشاں پھوٹتی رہے گی

ہماری حالت پہ ہنسنے والو یہ ہے تغیر پسند دنیا
تمہیں بھی رونا پڑے گا آخر لبوں پہ کبتک ہنسی رہے گی

کسی طرح سے گزار لیں گے یہ لمحئہ پر فریب ہستی
ہوئے نہ تم جیتے جی ہمارے بس اک شکایت یہی رہے گی

کسے خبر تھی کہ فصلِ گل میں چمن کا کچھ اور رنگ ہوگا
گلوں کے منکے ڈھلے رہیں گے اُداس اُداس ہر کلی رہے گی

ہماری محرومیوں نے اے دلؔ  بدل دیا رسمِ میکدہ بھی
ہمارا دور آتے آتے شاید حرام بادہ کشی رہے گی

ڈاکٹر ایم اے دل حسینی


0 comments:

Post a Comment